Wednesday, October 7, 2015

The Pakistani Youth Solidarity

Abdul Qadir 
He is writer,  columnist, social activist and research associate.

In the global world the youth of Pakistan is facing multifarious challenges and problems in the field of ideology. The world's thought is full of concepts, the trends in the field of science, technology, politics, sociology and business are multitudinous. The ideologists are exercising latest means and methods to propagate their case in most alluring and attractive form in order to make appealing. They are using different types of channels and sources, like electronic media, social media, dramas and movies etc.

As you know about Karachi incident of that a young boy, student of 10th class committed suicide after shooting the female class mate. Did you see their letters? Those letters were written just like a script or scene of a drama or movie. It is the impact of media which reflects in young generation as an example of Karachi incident. Anti Pakistan force not only captured our physical bodies but they are still capturing our minds through their programs and dramas which we are watching on different channels at homes.
Now a day's our youth does consider the actors as role model in their lives, they follow them and adopt their culture. It is against Islamic concept. We have a perfect role model in the life of Hazrat Muhammad (Peace Be Upon Him). Unfortunately we just believe in Hazrat Muhammad (Peace Be Upon Him) as a last Prophet but do not follow his teachings and guidance. His personality, manners and leadership qualities are model for us. Youth must follow his teachings for this life and life hereafter. During His life (Muhammad PBUH) the Muslim civilization was united and they were following His teachings.

Civilization is most important for the survival of any nation. but anti Pakistan forces are exploiting our civilization through youth. They are also exploiting, educational institutions, welfare organizations, research centers and other organized groups for their purposes. They are specially focusing on youth and targeting them for their destructive ideologies. According to the Islamabad Policy Research Institute (IPRI) the youth population is at least 60 percent of total population. With respect to the number and with respect to its importance youth an influential force. In Pakistan so many youth organizations are working, some of them are good and others are using different tools to detract youth from their natural inclination. This situation is in front of us. Government and society is responsible to encounter these types of organizations, NGO'S and their activities.

It is therefore necessary for those people who are concerned with interest and future of youth should play very constructive role to protect youth from evils of harmful trends and cultures. It's necessary to think about their protection of ideology, culture, norms and values. Face the enemy with unity, faith and discipline.     

Sunday, October 4, 2015

کچی عمر کی محبت اور کونسلنگ

کلاس روم میں کم عمر جوڑے کی خون میں لت پت لاشیں پڑی ہیں ، ساتھ ہی دو الگ الگ خط پڑے ہیں ، ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں ، بے ربط تحریریں ہیں ۔بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے بے حد پیار کرتے ہیں ۔ میڈیا نے اس خبر کو حسبِ روایت شہ سرخیوں میں جگہ دینے کے بعدچپ سادھ لی ۔ پولیس نے بھی حسبِ توقع واقعے کو لڑکی اور لڑکے کی باہمی رضامندی سے کی جانے والے خودکشی قرار دے کرتحقیقا ت پر فل سٹا پ لگا دیا۔کیا کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیا کیفیت ہوگی جس نے16 سال کے نوجوانوں کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کیا ؟جن کو suicide کے صحیح سے سپیلنگ بھی نہ آتے تھے وہ اس نہج تک کیوں کر پہنچے ؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پولیس کی تحقیقات یہاں تک ہونی چائیے کہ پستول سکول کے اندر کیسے آیا ؟ اور آیا لڑکے اور لڑکی نے باہمی رضامندی سے خودکشی کی یا باہمی اختلاف رائے سے؟اور سب سے اہم سوال اس ادوناک واقعے کا ذمہ دارہے ؟والدین ؟معاشرہ؟ استاد ،؟میڈیا کے ذریعے بڑھتی بے راروہی ، ؟ یا کو ایجوکیشن ؟
زندگی کی حقیقت سے ناآشنا ، محبت کے بحر و عروض سے ناواقف ، کچی عمرمیں ناپختہ ذہن ، پر خلوص جذبات ، حساس طبعیت کے مالک ٹین ایجرز کسی کی ذرا سی ہمدردی ، چھوٹی بات یا اچھے فعل سے متاثر ہوکراُس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ چھوٹے سے تعلق کو محبت کا نام دے دیتے ہیں ۔پھر جدید ٹیکنالوجی بالخصوص انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بے دریغ اور غیر ضروری استعمال نے کام اور آسان کردیا ہے ۔ آجکل انٹرنیٹ اور موبائل فون پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان بات چیت فیشن بنتی جارہی ہے ۔ اس بات چیت کو دوستی اور دوستی کو محبت میں بدلتے آجکل کے ٹین ایجرز پل نہیں لگاتے ۔وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ ان کے جسم میں ہونے والی ہارمونل تبدیلیوں کی و جہ سے پیدا ہونے والی کشش ہے ۔ اور کچھ نہیں ۔اصل محبت تو وہ ہوتی ہے جو میچور ایج میں کی جائے ،ایسی عمر جس میں انسان صحیح سوچ سمجھ کیساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔لیکن ٹین ایجرز کی اکثریت اس قسم کے تعلق کو محبت کا نام دیتی ہیں ۔اس قسم کی ’’عارضی محبت‘‘ عام طور پر بہت جلد عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔ بنا ایک دوسرے کو صحیح طریقے سے سمجھے، جانے پہچانے ، زندگی بھر ساتھ رہنے کی عہد وپیماں ہوجاتے ہیں ۔کچھ مہینے، محبت کے نشے میں سرشار گزرتے ہیں۔ایک دوسرے کی باتیں دل افروز لگتی ہیں، راستے قوس قزاح لگتے ہیں۔محبت کے سوا کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔لیکن کیونکہ ایسے فیصلوں میں دور آندیشی کارفرما نہیں ہوتی اور ٹین ایجرز کے خیالات اور نظریات ہیر سٹائل کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔اس لئے یہ’’ طفلانہ محبت‘‘ زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔ بہت جلدانہیں ایک دوسرے سے ہزاروں شکوے ہونے لگتے ہیں ۔ وہی پابندیاں بری لگنے لگتی ہیں جو پہلے پہل اُن کو اچھی لگتی تھیں ۔جس کے ایک اچھے فعل کو دیکھ کر متاثرہوکر دل تھما بیٹھے تھے اس کے ایک غلط فعل یا خراب عادت پر سب کچھ ختم کرنے کی ٹھان بیٹھتے ہیں ۔ جلد ہی ٹین ایجرزکی اکثریت کو اپنے فیصلوں پر پچھیتاواہونے لگتا ہے ۔ وہ جان جاتے ہیں کہ اُن کا فیصلہ درست نہیں تھا۔پھر کیا ہوتا ہے، وہ جو چند ماہ قبل ایک دوسرے کو بے پناہ چاہتے تھے ایک دوسرے سے پناہ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔لیکن علیحدگی آسان نہیں ہوتی کیونکہ علیحدگی کا یہ فیصلہ بھی جلدبازی اور جذبات پر مبنی ہوتا ہے ۔دل پھر اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا ۔ اگر علیحدگی ہو بھی جائے تو ساتھ گزارے لمحات، آپس میں کیے عہد وپیماں یاد آتے رہتے ہیں ۔ٹین ایجرز کی اکثریت اس قسم کی محبت کے ایسے انجام پر یہ سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوگیا ۔ یوں یہ طفلانہ محبت اکثریت کی زندگی کا روگ بن جاتی ہے ۔بہت سے کیسز میں یہ عارضی محبت یکطرفہ ہوتی ہے۔کچھ لوگ محبوب کو نہیں بھول سکتے، اورکچھ لوگ اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کو، یوں بھولنے اور یاد رکھنے کی یہ کشمکش جاری رہتی ہے ۔یہ کشمکش ٹین ایجرز کو مزید گھٹن کے ماحول میں لے جاتی ہے ۔ محبت میں ناکامی ایسی مایوسی کو جنم دیتی ہے کہ ٹین ایجرز سمجھتے ہیں کہ انکے زندہ رہنے کا مقصد ہی نہیں رہا۔اس عارضی اور کچی محبت کا دورانیہ بلا شبہ قلیل ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب نہیں کہ اس کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ بچے اس عمر میں بہت حساس ہوتے ہیں ۔اس پر بعد میں آئیں گے کہ اس قسم کی صورتحال سے میں بچوں کیساتھ کیسے نمٹا جائے ، یا انہیں کیسے نارمل لائف کی طرف لایا جائے ۔پہلے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو کچی عمر کی محبت کو ہوا دے رہے ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جائے ۔انٹر نیٹ اور موبائل فون کے بے دریغ استعمال کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں ۔خاص طور پر لیٹ نائیٹ پیکیجز نے ہماری نسل نو کو برباد کردیا ہے ۔پہلے پہل نوجوان لڑکے لڑکیاں مختلف موضوعات پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں ،کچھ دن بعد جب کوئی موضوع نہیں بچتا تو وہ ان موضوعات پر بھی بات کرنا شروع کردیتے ہیں جن پر انہیں اس عمر میں بات نہیں کرنی چاہیے ۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں کی صنف مخالف سے ایسے موضوعات پر بات چیت کے اثرات انتہائی بھیانک ہوسکتے ہیں ۔گزشتہ سال پنجاب اسمبلی ان پیکیجز کے خلاف متفقہ طور پر قرار داد بھی منظور کر چکی ہے لیکن حکومت اور پی ٹی اے نے ان پیکیجز کے خلاف تاحال کو ئی اقدام نہیں اٹھایا ۔اس ضمن میں حکومت ہی کوئی اقدام اٹھا سکتی ہے ۔ والدین کی اکثریت بچوں کو نہ تو موبائل فون دینے سے انکار کرسکتی ہے اور نہ ہی ان پر سخت قسم کی پابندیاں لگاسکتی ہے ۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں بچوں کے ذہن پر منفی اثرات چھوڑ تی ہیں اوربچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ والدین پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچوں کو دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل رکھ سکتے ہیں تاکہ ان کے پاس اس قسم کی سرگرمیوں کے لئے وقت نہ بچے ۔
موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا نے بھی نوجوانوں کی زندگیوں کے طور طریقے اور خیالات بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔الیکٹرانک میڈیا جوکہ گھر گھرپہنچ چکا ہے معلومات کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بیشتر چینلز بیہودہ پروگرامز دیکھا کر معاشرے میں بیگاڑ کا باعث بن رہے ہیں ۔میڈیا کی ماد پدر آزادی بے حیائی پھیلانے اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ، حکومت نے غیر ملکی ڈراموں کو نشر کرنے کی اجازت دے کر اس بے حیائی کی بنیاد ڈالی ہے ، ا ب اُن کی دیکھا دیکھی مقامی چینلز نے بھی تمام حدیں پار کر لی ہیں ۔رہی سہی کسر مارننگ شوز نے پور ی کرلی ہے ۔میڈیا پر جاری بے حیائی کا یہ سیلاب سب کچے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔اب دو ہی حل ہیں، یا تو حکومت ایسے تمام پروگرامز اور ڈراموں پر پابندی عائد کرے ۔ یا پھر آپ اپنے بچوں کو ایسا موا د دیکھنے سے روکیں ۔ حکومت اس طرح کے پروگرامز ، ڈراموں اور سیگمنٹس پر پابندی لگاتی نظر نہیں آتی اور آپ بھی اپنے بچوں کو ٹی وی دیکھنے سے مکمل طور پر نہیں روک سکتے ۔اگر آپ بچوں پر ٹی وی دیکھنے پر مکمل پابندی لگائیں گے تو وہ اپنے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر اس سے بھی بری مویز یا ڈرامے دیکھ سکتے ہیں ، اب تو تھری جی فور جی کے آنے کے بعدغلط سے غلط ویب سائیٹ ان سے ایک کلک کے فاصلے پر ہے ۔وہ اکیلے اپنے کمر ے میں چھپ کر کیا دیکھتے ہیں کیا نہیں اس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ ایسی ویب سائیٹس یا مویز جو وہ اکیلے میں دیکھیں گے اس کے اُ ن کے ذہن پرمزید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔بہتر یہی ہے کہ آپ کسی مہذب چینل کے ڈرامے یا مارننگ شو کا انتخاب کریں ( جو کم نقصان دے ہو ) اور انہیں اپنے ساتھ بیٹھا کر دیکھائیں ناں کہ ان کو زیادہ نقصان دے چیز دیکھنے پر چھوڑ دیں ۔
پہلے اور دور ہوتا تھا ، جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا، بچے والدین کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو دادا ،دادی ، چچا ، چچی ، ماموں ، ممانی کی نظروں سے نہیں بچ سکتے تھے ۔اگر کوئی بچہ ڈی ٹریک ہو بھی جاتا تو سب مل کر اُس کو سمجھاتے تھے ، سب اُس کی کونسلنگ کرتے تھے ۔لیکن آج جوائنٹ فیملی سسٹم آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پیچیدگیاں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور ان کے بچوں کے لئے پڑھائی کرنے کے لئے ساز گار ماحول دستیاب نہیں ہوتا اس لئے وہ الگ رہنے کو ترجیع دیتے ہیں ۔ سپریٹ فیملی سسٹم والدین اکثریت کی تمام تر توجہ بچوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے ۔والدین اپنے بچوں کو جدید دور کی ہر آسائش فراہم کرنے میں مصروف ہیں جس میں عمدہ گاڑی ،قیمتی موبائل، لیپ ٹاپ اور پہننے کے لئے قیمتی ملبوسات لیکن وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پارہے ۔میری والدین سے التجا ہے بچوں کو سب سہولتیں دیں لیکن ان پر نظربھی رکھیں ۔ وہ کیا کرتے ہیں؟ کس وقت سوتے ہیں؟ کب جاگتے ہیں؟ کس کس سے ملتے ہیں ؟ اُن کے ساتھ ایک خاص درجے کی دوستی رکھیں ؟ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اُن کا رجحان کس طرف ہے؟اُن کی زندگی کا گول کیا ہے؟وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟اُن کا اعتماد حاصل کریں۔ مثبت سرگرمیوں میں اُن کی حوصلہ افزائی ، منفی سرگرمیوں میں حوصلہ شکنی کریں ۔ اُ ن پر گھر کے کا موں کے حوالے سے بھی ایک مناسب بوجھ ڈالیں تاکہ اُن میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اوروہ فضولیات کے لئے وقت نہ بچا سکیں ۔ پھر بھی اگر اس طرح کی صورتحال درپیش ہوتی ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے کی روٹین مختلف ہوگئی ہے ، یا اس نے کچھ چھپانا شروع کردیا ہے ،اس کے مزاج میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ تو کھوجنے کی کو شش کریں کہ معاملہ کیا ہے ؟ وہ کسی کی محبت میں تو نہیں گرفتار ہوگیا ۔ اگر ایسا ہے تو جاننے کی کوشش کریں کہ تعلق کتنا گہرا ہے ۔ ایسی صورت میں بچے کو کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کونسلنگ کون کرسکتا ہے ؟معاشرہ ، دوست، استاد یاوالدین ، ؟؟
یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ بے حسی کو حدوں کو چھو رہا ہے ۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ قریبی رشتے بھی ایک ایک کرکے بے حس ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو بس بات چاہیے ہوتی ہے ، جس پر وہ اپنی مرضی کی کہانی گھڑ سکیں ۔پھر تبصرے برپا ہوتے ہیں ۔ کھل کر تنقید ہوتی ہے۔ چاہے قریبی سے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، طعنہ باز ی عروج پر ہوتی ہے ۔ایسی صورت میں کم عمر بچے یا بچی کی چھوٹی سی غلطی انہیں الزمات کے جہنم میں دھکیل دیتی ہے ۔معاشرہ کونسلنگ کے بجائے ایسا انتقام لیتا ہے اور ایسی ایسی من گھڑت کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ مجبور ہوکر بچے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔اور اس طرح کے کیسز میں جہاں بچوں کی عمر کم ہو ، وہاں اُن کے سوچنے سمجھنے کی قوت معدوم ہوجاتی ہے ۔ پیار محبت ویسے چیز ہی ایسی ہے جو بڑے بڑوں کی سوچنے کی قوت ختم کردیتی ہے ۔ بچے تو پھر بھی بچے ہیں ۔اُن سے غلطی سرزرد ہوجانا بڑی بات نہیں ۔یہاں میں ایسے جذبات کا ہرگز دفاع نہیں کررہا ۔ میں اس بات کا بہت حد تک قائل ہوں کہ محبت ایک خاص عمر میں پہنچنے کے بعد کرنی چاہیے ۔ لیکن محبت جذبہ ہی ایسا ہے کہ خود بخود دل میں فروغ پاتا ہے ۔محبت آندھی ہوتی ہے یہ کسی بھی عمر میں کسی سے بھی ہوسکتی ہے ۔اور موبائل فون، انٹر نیٹ اور دیگر تمام سہولیات کے بے دریغ استعمال نے اس طرح کی غلطیوں کے امکانات کو بڑھا دیا ہے ۔ اس طرح کی صورتحال میں عزیز وا قارب ،رشتہ داروں ،محلہ داروں اور پڑوسیوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ غلطی تو کسی کے بھی بچے یا بچی سے سرزرد ہوسکتی ہے ۔ ایسی صورت میں طعنے بازی سے اجتنا ب کرنا چاہیے ۔ کیا پتہ وہ لڑکا یا لڑکی اپنی غلطی کی وجہ سے پہلے ہی نادم اور دل گرفتہ ہو۔آپ کی طعنے بازی اورجملے بازی اسے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کرسکتی ہے ۔دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچوں کی طرح ٹریٹ کریں ، ضرور سوچیں کہ اگر اس بچے کی جگہ آپ کا بیٹا یا بیٹی ہوتی تو بھی آپ یہی کرتے ؟

Thursday, October 1, 2015

Terrorism: What Next




Irfan Nawaz

Writer is freelance columnist & Social Work Graduate


The dawn of 21st century bring new challenges. On September 11, 2001, Twins tower, World Trade Centers United states, were came under attack by terrorists, which later retaliated in New World Order in which coping terrorism had become top priority of the US and its allies. These attacks were considered as attack on USA’s sovereignty and President George Bush, however, pledged to his nation that he will bring attackers before justice. In this way, USA, with collaboration of NATO, attacked on Afghanistan for arresting Al-Qaida’s top leadership which was held responsible of Twin towers attack. Waging war in Afghanistan resulted in chaos. In this war against terror, Pakistan played a role as a frontline state. Having long border with Afghanistan helped terrorists to escape from Afghanistan to Pakistan and find safe heavens in Pakistani tribal areas. These terrorists started operating in Pakistan and facilitated terrorist activities here as they opined that being front line state in war against terrorism Pakistan is equally responsible and they considered themselves justified to attack Pakistani people on Pakistani soil. Since 2004, People of Pakistan have been witnessing thousands of suicide attacks and terrorist activities on their soil.
Moreover, Terrorism refers to multifaceted warfare having severe psychological, physical and social effects. Moreover, it is worthwhile to mention that terrorism is not only a problem for those who are living in war zones but it also affects inhabitants of nearby areas. A terrorism-affected person may respond in numerous ways; apart from physical injuries, some victims may experience trauma that would lead to stress and fear.
Addressing this menace, admirable efforts have been made on strategic ground as various military operations launched in different areas of the country and presently Operation Zarb e Azab is in process in South and North Waziristan. In this way, improving surveillance on western border and intelligence sharing with Afghanistan are recent initiatives to root out this menace of terrorism. But on social grounds, no efforts, unfortunately, have been made so far in coping terrorism. As terrorism-hit nation, people are facing psychological problems and as a whole we are losing our temperament.  For instance, in APS massacre, children were still in traumas as they are the future of the nation but unfortunately they need some aspect of help to comes in normal life. But it seems that no one is here to help such terrorism-hit people as they are not few in number but more than sixty thousands families who are in need of some help to restore their normal functioning in the society. In this severe situation, apart from others, a professional Social Worker should take step ahead to play his due role in the society. 
A Professional Social Worker can play its role at both micro and macro level. At micro level, In context of terrorism, a person, who is being affected by terrorism might be victim of the attack or witness of that attack. In both cases, he would be at risk of trauma. In this way, a Professional Social Worker conduct therapeutic interviews in which he studies client’s current state of mind and the severity of the effects on his personality. By conducting series of interview, a Professional Social Worker brings him in a comfort zone where a client is in position to understand his problem and in position to intimate efforts to restore his normal functioning. At macro level, by application of social action, Professional Social Worker can conduct seminars, trainings and group discussion in which participants are informed about severity of the terrorism, what is first aid and what are the first aid essentials, then how local leadership raise to educate people about coping terrorism with the application of principle of utilizing local resources by community development.  Overall, these efforts under the umbrella of Social Work Profession philosophy would help in informing masses about the menace of terrorism and strengthen the notion that there is no sympathy for terrorists, by learning first aid concepts people are aware that how they respond in case of any emergency like blasts till the ambulances reach.
In a nutshell, coping terrorism at strategic grounds is not only the solution to end terrorism but since long witnessing terrorism severely affected citizens of the Pakistan. In this way, it is dire need to step ahead the social scientists especially Professional Social Workers to restore Pakistani society as a healthy nation by all bio-psycho-social aspects and government of Pakistan should also coordinate and support so that these social scientists can work independently to normalize the social fabric of society which is torn by terrorists.

Broadening the Tax Base

Ali Anwar .. 
The writer has done M.Phil. in Government and Public Policy from National Defence University Islamabad. He has been providing Tax consultancy (e-filing of returns, compliance of notices and application for refund and reduction) since 2012
 Budgetary expansion, increasing debt servicing for internal and external borrowing, and binding contracts under Extended Fund Facility (EFF) with International Monetary Fund (IMF) have instigated the demand for widening the tax base and adding more and more people in the tax net. The total outlay of budget 2015-16 is Rs. 4,451.3 billion is 3.5% higher than the size of budget estimates Rs. 4,235.1 billion of 2014-15. Where is so called ‘prudent expenditure management’? Even the non-productive expenditure can be observed all over the country such erecting city doors, rebuilding the built infrastructure and installation of the road lights which cannot be utilized due to electricity crisis, but adding further to the budget deficit. Why are the authorities unable to understand…?  Does it make any sense to build hospitals without staff and medicine…installation of the road lights without electricity?
Under the Memorandum on Economic and Financial Policies (MEFP) for 2013/14–2015/16, it was planned to reduce Fiscal deficit to 3.5 per cent (excluding grants) of the Gross Domestic Product (GDP) in FY2016/17 and to increase tax share 1 percent of GDP annualized basis. Currently, direct taxes 40.2 percent and indirect taxes (sales, custom and excise) holds 58 percent. Current Tax to GDP ratio is 9.7 percent is lower than 2001. Even, Tax collection by the provinces reduced in FY 2014/15 as compared to 2013/14. 
For this purpose, variety of taxes levied to increase tax to GDP ratio such as; General Sales Tax (GST), corporate minimum tax rate; higher personal income tax, banking transaction (6 percent), higher excises on cigarettes, several with-holdings and sales taxes on motor vehicles and property transfers, and the list goes on.
As far as seriousness of taxation issue is concerned, the very issue led to American Revolution 1750s and 1760s. Revolution may not occur here but the ruling party may suffer the dire consequences. All over the country, traders have already showed an ominous sign.  A higher taxation may lead to tax evasion and force masses to come on the roads. At the moment, prudent expenditure management and efficient tax system are essential.  Whereas the expenditure management is concerned the budget can be revised and its outlay can be decreased like the previous budget.  
There are certain principals which are being followed worldwide while imposing taxes. Efficiency must be kept in view and taxes should not become impediment for economic growth. Innovations and inventions are good but there must be rational policy making. These are easy ways for collection can harm economic efficiency in terms of massive capital flight and contraction in banking business. For instance, innovative people can also use other means of money transfer.
Withal, new method of e-file is speedy and cost effective which is providing administrative simplicity. To file a tax return and reconcile wealth statement is not as simple as using the social media websites. Majority of the taxpayers are not computer literate because they are not from computer age of Pakistan. Whatever, if they manage someone who is computer literate but it doesn’t mean every computer literate understand taxation system. A wrong entry in filing a return can put the taxpayer under litigation. People feel scared while getting National Tax Number (NTN) because if they get registered, they have to file income tax return every year. Even the salaried person who have income with tax deducted at source feel panicked while entering into tax net. Despite they have nothing to pay because taxes already deducted at source. Tax consultants are not cheap and add additional cost to the taxpayer. Therefore, the method is not flexible and not even easy to adopt. What if the consultants are available at district level centers but it charge an additional cost in terms of time and money by moving from a tehsil to a district center. Reluctantly, people avoid fatigue job to save their time and money by using other means according to their power and relations. Federal Board of Revenue (FBR) can hire and train the fresh commerce graduates for the very months of filing the returns to facilitate the taxpayer. Issuance of notices and extensions in the last date without understanding the gravity of the problem will not work. 

Prevalent criticism on the government is about their political responsibility that the funds are not transparently and effectively utilized. Public relation departments can be utilized in this way to inform the public through e-governance and electronic media but the sections of publications on public institutions remain outdated or empty. In fair and good governing systems, there must be rule of law.  Political leaders too have to pay taxes along the general public. Let me quote a most common response by a layman, “Why should I pay tax when the big fish are not paying?” In this regard the government has to show responsibility and introduce a fair system of taxation.